ہتک آمیز رویہ
میں چھبیس سال کی ایک صحتمند شادی شدہ خاتون ہوں۔ میری شادی کو ابھی ایک سال بھی نہیں گزرا مگر ایسے لگتا ہے کہ صدیوں سے اس وبال میں گرفتار ہوں۔ میرے شوہر عمر میں مجھ سے تقریباً پندرہ سال بڑے ہیں۔ دراصل میرے گھر والے ایک عرصہ سے میرے لئے اچھے رشتے کی تلاش میں تھے مگر کہیں سے بھی اچھا رشتہ نہ ملا۔ آخر ایک خالہ سے رابطہ ہوا تو اس نے کئی رشتے بتائے جن میں سے میرے گھر والوں کو یہ رشتہ پسند آ گیا۔ عمر میں بڑا ہونے کی کسر ان کے عالیشان گھر اور ملازمت نے پوری کر دی۔ شادی کے بعد شروع کے چند دن تو بہت اچھے گزرے مگر پھر مجھے یہ محسوس ہونے لگا کہ میرا شوہر تو بہت قنوطی قسم کا انسان ہے۔ نہ وہ خود کسی سے ملتا ہے اور نہ ہی کسی اور کو ملنے دیتا ہے۔ گھر پر اگر کوئی ملنے آ ئے تو اس کے ساتھ ان کا رویہ خاصا ہتک آمیز اور حوصلہ شکن ہو جاتا ہے۔ شادی کے بعد میرے بعض رشتہ دار مجھ سے ملنے کے لیے آئے تو ان کے اس روئیے سے وہ خاصے مایوس ہو گئے اور اس کے بعد دوبارہ ادھر نہیں آتے۔ اس کے علاوہ ان کی یہ عادت بھی بہت تکلیف دہ ہے کہ وہ معمولی معمولی باتوں کو بہت بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں۔ ہر وقت خود کو تھکا ہوا ظاہر کرتے ہیں۔ ان کے اس روئیے کی وجہ سے میں مریضہ بنتی جا رہی ہوں۔ شادی ہوئے سات آٹھ ماہ ہوئے ہیں۔ اس دوران میں میکے بھی بہت کم گئی ہوںاور اگر کبھی گئی بھی ہوں تو بہت تھوڑی دیر کے لیے کہ ان کے ساتھ ہی واپس آگئی۔ اپنا دکھڑا بھی نہیں سنا سکی۔ اب آپ مجھے کوئی مناسب مشورہ دیں کہ میں کیا کروں؟ (ق چ۔ شیخوپورہ)
مشورہ: محترمہ! آپ نے لکھا ہے کہ آپ کے گھر والے ایک عرصہ سے اچھے رشتے کی تلاش میں تھے اور جب انہیںاچھا رشتہ ملا تو بغیر کسی تحقیق کے رشتہ طے کر دیا۔ آ پ کاخیال ہے کہ شادی سے پہلے اگر تحقیق کرائی جاتی تو شاید آپ کو یہ تکلیف نہ ہوتی۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ کا خیال خام ہے۔ کیا آپ نے کبھی یہ سوچا ہے کہ آپ کے گھر والے آپ کے خاوند کی ملازمت سے ہی سب سے زیادہ متاثر ہوئے اور اس کی وجہ سے اس کی بڑی عمر کو بھی نظر انداز کر دیا گیا۔ کیا آپ نے کبھی یہ سوچا ہے یا اندازہ کیا ہے کہ آپ کے خاوند کو ملازمت کے سلسلے میں کس قدر محنت کرنا پڑتی ہے اور ان کا وقت کس قدر قیمتی ہے۔ گھر پر اگر وہ لوگوں سے ملاقات نہیں کرتے تو ممکن ہے ان کے پیش نظر یہی معاملہ ہو مگر آپ نے اس حوالے سے کبھی سوچا ہی نہ ہو۔ وہ معمولی باتوں کو اگر بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں اور خود کو ہر وقت تھکا ہوا محسوس کرتے ہیں تو عین ممکن ہے کہ وہ واقعی ایسا محسوس کرتے ہوں۔ ذمہ دار قسم کے لوگ کسی بھی معاملے کو اس وقت اہمیت دیتے ہیں جب وہ معاملہ رونما ہونا ہوتا ہے۔ اس وقت معمولی سی توجہ دینے سے معاملہ حل ہو جاتا ہے لیکن کوئی واقعہ رونما ہو جائے تو اس کو روکنا ممکن نہیں ہوتا۔ ان کا یہی رویہ شاید آپ کے لیے تکلیف دہ ہے۔ محترمہ! اعلیٰ ملازمت کو برقرار رکھنے کے لیے انسان کو بہت زیادہ محنت کرنا پڑتی ہے۔ آپ کی یہ شکایت تو جائز ہے کہ شادی کے بعد مل بیٹھنے کا موقع نہیں ملا یا پھر کم ملا مگر اچھی بیویاں ایسی صورتحال میں اپنے خاوند کے ساتھ تعاون کرتی ہیں۔ اگر آپ دفتری امور میں ان کی مدد نہیں کر سکتیں تو ان کی صحت کا خیال رکھ کر تو ان کی مدد کر سکتی ہیں۔ آپ گھر میں ان کے آرام اور سکون کا بندوبست تو کر سکتی ہیں۔ آپ اپنے خاوند سے اگر توجہ چاہتی ہیں تو پھر پہلے آپ خود اس کو بھرپور توجہ دیں۔ آپ کے خط سے تو یہی اندازہ ہوتا ہے کہ آپ نے اپنے شوہر کی ضروریات اور صحت کا بالکل خیال نہیں رکھا بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ آپ کو ان کی ضروریات کا اندازہ اور احساس ہی نہیں ہے تو غلط نہ ہوگا۔
مجھ سے نہ ملا کرو
میری عمر بیس سال ہے اور اس وقت بی اے میں پڑھ رہا ہوں۔ میٹرک کے بعد کالج میں داخلہ لینے کے لیے میں اپنے چچا کے گھر ،شہر چلا گیا۔ میرے چچا کا شہر ہمارے گاﺅں سے تقریباً بیس میل دور ہے۔ میرے چچا کے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔ دونوں بیٹے میرے ہم عمر ہیں جبکہ بیٹی عمر میں مجھ سے بڑی ہے۔اس سے ملنے ان کے محلے کی ایک لڑکی آئی جو میری ہم عمر تھی اور مجھ میں کسی حد تک دلچسپی بھی لینے لگی تھی۔ یوں وہ مجھے پسند آ گئی اور ہم دونوں ایک دوسرے کے بہت قریب ہو گئے۔ پھر گزشتہ برس موسم گرما کی چھٹیاں ہوئیں تو میں اپنے گاﺅں واپس چلا گیا۔ چھٹیاں گزار کر جب میں واپس گیا تو مجھے معلوم ہوا کہ اس لڑکی کی منگنی اس کے رشتہ داروں میں ہو گئی ہے۔ اب وہ لڑکی مجھے کہتی ہے کہ ہم دونوں کہیں چلے جاتے ہیں کیونکہ وہ میرے بغیر نہیں رہ سکتی لیکن میں نے اسے سمجھایا کہ تم اب کسی اور کی امانت ہو اس لیے مجھ سے نہ ملا کرو لیکن وہ میری بات سمجھنے کی بجائے خود کشی کرنے کی دھمکی دیتی ہے۔ ان حالات میں مجھے بالکل سمجھ نہیں آ رہا کہ میں کیا کروں؟ (ریحان عالم۔ میاں چنوں)
مشورہ :گھر سے بھاگ کر شادی کرنے یاخود کشی کی دھمکی دینے والے لوگ عام طور پر نارمل نہیں ہوتے اس لیے ان سے دور رہنا ہی اچھا ہوتا ہے مگر مشکل یہ ہے کہ آپ نے اسے نجانے کیا کیا خواب دیکھا رکھے ہیں۔ اس لڑکی کی ابھی صرف منگنی ہی ہوئی ہے، اس لیے یہ ساری صورتحال اپنے والدین کو صاف صاف بتا دیں۔ ممکن ہے وہ آپ کی باتوں کی لاج رکھنے کے لیے ایک کوشش کر لیں۔ ممکن ہے اس لڑکی کے والدین کو آپ کی محبت کے بارے میں کچھ علم ہی نہ ہو اس طرح انہیں بھی باضابطہ طور پر علم ہو جائے گا۔ اگر انہیں اپنی بیٹی کی جان اور اپنی عزت عزیز ہوئی تو وہ آپ کا رشتہ یقینا طے کر دیں گے۔ کیونکہ منگنی توڑنا کوئی زیادہ مشکل کام نہیں ہوتا جتنا کہ شادی۔ اگر لڑکی کے گھر والے آپ کے ساتھ رشتہ طے کرنے میں کسی بھی طرح تیار نہ ہوں تو آپ گھر سے بھاگیں اور نہ چوری چھپے شادی کرنے کی حماقت کریں کیونکہ ایسی صورت میں ذلت و رسوائی اور خواری کے سوا آپ دونوں کو کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا۔ سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ آپ اس لڑکی کو سمجھائیں کہ اس عمر میں جسے پیار محبت سمجھا جاتا ہے ‘یہ مرض ہو ہی جاتا ہے اور یہ صرف اسے یا آپ کو ہی نہیں ہوا بلکہ اکثر لوگ اس کا شکار ہو جاتے ہیں مگر یہ پیار یا محبت نہیں ہوتا ہے بلکہ جب وقت گز رجاتا ہے تو دونوں فریق خود اپنے آپ پر ہنستے ہیں کہ دیکھو میں بھی کتنا بے وقوف تھا اور کیسی کیسی حماقتیں کرتا تھا۔ لیکن جو لوگ اس رو میں بہہ جاتے ہیں پھر ان پر سارا زمانہ ہنستا ہے۔
Ubqari Magazine Rated 3.5 / 5 based on 999
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں